سمندروں کے سفر میں ندی کی پیاس بجھے
سمندروں کے سفر میں ندی کی پیاس بجھے
ہمارے خون سے شاید کسی کی پیاس بجھے
نہ جانے کتنے اجالوں کو پی چکی لیکن
نہ جانے کب مری تیرہ شبی کی پیاس بجھے
مرا سکوت بھی آواز کا سمندر ہے
جو اک نظر مجھے چھو لے اسی کی پیاس بجھے
متاع سوز نہاں اور بخش دے مجھ کو
کسی طرح تری دریا دلی کی پیاس بجھے
سواد منزل جاناں کہ کوچۂ قاتل
کہیں تو جا کے غم زندگی کی پیاس بجھے
نصیب اہل نظر ہے سفر سرابوں کا
نہ بجھ سکی نہ کبھی جیتے جی کی پیاس بجھے
وہ تیرے گاؤں کا پنگھٹ تھا میرا شہر نہیں
کہ لو چلے تو کسی اجنبی کی پیاس بجھے
پگھل بھی جائے جو یہ برف اس کے چہرے کی
یقیں نہیں مری بے چہرگی کی پیاس بجھے
برستے تیروں کی بارش میں ہم ہیں سینہ کشا
یہی وہ رت ہے کہ دل کی لگی کی پیاس بجھے
ملے نہ جانے کہاں بدرؔ چشمۂ ظلمات
خبر نہیں کہ کہاں شب روی کی پیاس بجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.