سمندروں سے بہت دور آشنا ٹھہرے
سمندروں سے بہت دور آشنا ٹھہرے
غنیم میرے سفینے کے ناخدا ٹھہرے
پیام حق کے امیں سارے بے نوا ٹھہرے
خدا کرے کہ مری خامشی صدا ٹھہرے
بجھا کے جاتی ہے کتنے چراغ الفت کے
کبھی جو شہر میں نفرت کی یہ ہوا ٹھہرے
چھپا کے جانا پڑا آئنوں کو منہ اپنا
نگاہ خشت میں جب سنگ آئنہ ٹھہرے
نگار خانۂ دل ہے اجاڑ مدت سے
ہو جس کے دل میں ٹھہرنے کا حوصلہ ٹھہرے
ہمارے خون کے چھینٹے ہیں جن کے دامن پر
نگاہ منصف دوراں میں بے خطا ٹھہرے
تری خوشی کو بھلا کیسے اجنبی کہہ دوں
مرے لئے تو ترے غم بھی آشنا ٹھہرے
ہے کس کا نام لکیروں میں ہاتھ کی پوچھوں
کبھی جو شہر میں وہ رمز آشنا ٹھہرے
بھٹک رہی ہے اک امید میں ادھر سے ادھر
قبولیت کا کھلے در تو یہ دعا ٹھہرے
بجھا ہوں میں تو کروں کس لئے گلہ آخر
ہوا کے سامنے کب تک کوئی دیا ٹھہرے
وصال یار کی محنت جو کر رہا ہوں میں
فراق یار ہی شاید مرا صلہ ٹھہرے
یہی ہے ریت جہاں کی وفا کیا جس سے
اسی بشر کی نگاہوں میں بے وفا ٹھہرے
اسی امید پہ رکھا ہے خشک ہونٹوں کو
کبھی تو کشت بدن پر کوئی گھٹا ٹھہرے
ہمارے غم میں تو ہلکان ہو گئیں راہیں
کسی سرائے میں بھولے سے ہم جو آ ٹھہرے
چھتوں پہ جال بچھائے ہوئے ہیں سب اشہرؔ
کہاں پہ جا کے پرندوں کا قافلہ ٹھہرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.