سر بسر بدلا ہوا دیکھا تھا کل یار کا رنگ
سر بسر بدلا ہوا دیکھا تھا کل یار کا رنگ
خوب پہنا ہے نیا اس نے بھی اس بار کا رنگ
سوکھے پتوں کی طرح اڑتا ہوا دور تلک
میں نے جاتے ہوئے دیکھا مرے کردار کا رنگ
اب جو آیا ہوں تو خاموش تو جاؤں گا نہیں
اب اڑا کر کے ہی جاؤں گا میں دو چار کا رنگ
کوئی کہہ دے کہ جھکا دو تو جھکا دوں میں سر
اتنا کچا بھی نہیں ہے مری دستار کا رنگ
کوئی پوچھے گا تو اب کھل کے بتا سکتا ہوں
میرے دل دار سا ہوتا ہے جی دل دار کا رنگ
باندھ کر میں نے بدن یاد کے دھاگوں سے کبھی
مدتوں رسوا کیا روح طلب گار کا رنگ
اور پھر لوٹ کے واپس ہی نہیں جا پاے
دیکھنے آئے تھے ہم بھی کبھی اس پار کا رنگ
لوٹ تو آئی ہے ساحل پہ مگر خوف میں ہے
کشتی کی آنکھ سے اترا نہیں منجھدار کا رنگ
چارہ گر خود ہے پریشان کے ساونؔ کیسے
بدلا بیمار نے بیمار سے بیمار کا رنگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.