سر آئینہ حیرانی بہت ہے
سر آئینہ حیرانی بہت ہے
ستم گر کو پشیمانی بہت ہے
خرد کی گرچہ ارزانی بہت ہے
جنوں کی جلوہ سامانی بہت ہے
سبھی وحشی یہیں پر آ رہے ہیں
مرے گھر میں بیابانی بہت ہے
یہاں ہر چند سب خوش پیرہن ہیں
مگر دیکھو تو عریانی بہت ہے
نہ جانے کب مری مٹھی میں آئے
وہ اک لمحہ کہ ارزانی بہت ہے
عجب الجھن کہ چپ رہنا بھی مشکل
جو کہہ دوں تو پشیمانی بہت ہے
میں سمت دشت جانا چاہتا تھا
مگر اس میں تن آسانی بہت ہے
بھلا کر بیٹھتا ہوں ہر کسی کا
ابھی مجھ میں یہ نادانی بہت ہے
خدایا جوڑ کیا ہے عشق و دل کا
تری بخشش پہ حیرانی بہت ہے
زمیں کو راس کب آئے گا عرفاںؔ
وہ حرف حق کہ نقصانی بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.