سر آشفتہ پر پرکھوں کی پگڑی باندھ رکھی ہے
سر آشفتہ پر پرکھوں کی پگڑی باندھ رکھی ہے
کسی کا نام لکھ کر میں نے مٹھی باندھ رکھی ہے
کوئی تو راستہ مجھ کو دکھائے میری منزل کا
محبت نے مری آنکھوں پہ پٹی باندھ رکھی ہے
بہت بیتاب ہے غرقاب ہونے کو وہ دریا میں
مرے ہونٹوں پہ خشکی نے جو کشتی باندھ رکھی ہے
کہیں اس بار بھی پیاسی تری یادیں نہ رہ جائیں
سو آنکھوں نے مری پلکوں سے ندی باندھ رکھی ہے
تری یادوں کے جھونکوں سے کہیں کھل کر نہ گر جائے
بچھڑ کے تجھ سے دل پر جو تسلی باندھ رکھی ہے
ذرا پردہ ہٹا کر کھول دے اب دست نازک سے
دریچے نے نظر میری ترستی باندھ رکھی ہے
تری تعریف کے پل باندھنے میں ہے مگن دھڑکن
ہوا بے تابیوں نے دل میں کیسی باندھ رکھی ہے
انا میری بنا ڈالے نہ اس کو موت کا پھندا
مرے پیروں میں تو نے جو یہ رسی باندھ رکھی ہے
سفر میں دوسرے رخت سفر آتے ہیں کب تک کام
سو اب ان کی دعاؤں کی یہ گٹھری باندھ رکھی ہے
اندھیرے دم دبائے پھر رہے ہیں بد حواسی میں
ہوا میرے چراغوں نے کچھ ایسی باندھ رکھی ہے
زمین دل پہ میری اک پرندہ ایسا اترا ہے
کہ جس نے قوت پرواز میری باندھ رکھی ہے
نہیں شہبازؔ مجھ سے آگ کی لپٹیں نہیں لپٹیٖں
بدن سے میں نے اپنی آپ بیتی باندھ رکھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.