سر راہ کوئی مجھے ملا کہ نقاب رخ سے اٹھا دیا
سر راہ کوئی مجھے ملا کہ نقاب رخ سے اٹھا دیا
صوفی محمد تنویر ساجد نقشبندی
MORE BYصوفی محمد تنویر ساجد نقشبندی
سر راہ کوئی مجھے ملا کہ نقاب رخ سے اٹھا دیا
اک عجیب شعلۂ حسن تھا دل و جاں میں آگ لگا دیا
وہ تڑپتا مجھ کو یوں چھوڑ کر مجھے حیرتوں میں وہ ڈال کر
وہ کدھر سے آیا کہاں گیا نہ تو نام اور نہ پتا دیا
ہے رگوں میں خون یا آگ ہے یہ عجیب طرح کی لاگ ہے
وہ زباں پہ عشق کا راگ ہے کہ جو ساز دل نے سکھا دیا
مرے دل کا جل گیا آشیاں مری چشم نم ہے دھواں دھواں
اسے ڈھونڈھتا ہوں یہاں وہاں مرے دل کو جس نے جلا دیا
شب و روز اس کا حضور ہے جو سراپا نور ہی نور ہے
اک عجیب کیف و سرور ہے کہ نظر کا جام پلا دیا
ہوا جب بھی وہ مرے روبرو مری آنکھیں کرنے لگیں وضو
تبھی چشم ساجدؔ کم نظر سے حجاب سارے اٹھا دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.