سر کو آواز سے وحشت ہی سہی
اور وحشت میں اذیت ہی سہی
خاک زادی ترے عشاق بہت
میں تری یاد سے غارت ہی سہی
وہ کہاں ہیں کہ جو مصلوب نہ تھے
میری مٹی میں بغاوت ہی سہی
آہ و آہنگ و اہانت کے کنار
اے مری پیاس پہ تہمت ہی سہی
خود سے میثاق غلط تھا میرا
اے ترے خواب ضرورت ہی سہی
عشق اے عشق عزادار ہوں میں
دوش پہ بار ہزیمت ہی سہی
پھر کسی خواب کی بیعت کر لیں
پھر کسی دکھ کی تلاوت ہی سہی
ایک خواہش کہ جسے سینچ سکیں
رائگانی کی ریاضت ہی سہی
ہم سے کچھ اور تو کیا ہونا ہے
اک ترے غم کی حفاظت ہی سہی
لوٹتے ہیں کہ بلاتا ہے کوئی
بارش سنگ ملامت ہی سہی
ٹوٹتے ہیں کہ نشہ ٹوٹتا ہے
خود سے ملنے میں اذیت ہی سہی
اب کسی اور کی خواہش ہی کہاں
اب ترے ہجر سے فرصت ہی سہی
کاغذی شہر اڑے جاتے ہیں وہ
آسمانوں کی رفاقت ہی سہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.