سر پٹکتی رہی دشت غم کی ہوا ان کی یادوں کے جھونکے بھی چلتے رہے
سر پٹکتی رہی دشت غم کی ہوا ان کی یادوں کے جھونکے بھی چلتے رہے
حامی گورکھپوری
MORE BYحامی گورکھپوری
سر پٹکتی رہی دشت غم کی ہوا ان کی یادوں کے جھونکے بھی چلتے رہے
شام سے تا سحر گھر کی دہلیز پر ہم چراغوں کی مانند جلتے رہے
حسن کی دھوپ نے زلف کی چھاؤں نے نور کے شہر نے رنگ کے گاؤں نے
ہر قدم پر ٹھہرنے کو آواز دی ہم کو چلنا تھا کانٹوں پہ چلتے رہے
شہر کے موڑ پر کل ملے تھے مجھے میرے بچپن کے دن میرے بچپن کی شب
گاہے آنکھیں ملیں گاہے پلکیں جھکیں گاہے رکتے رہے گاہے چلتے رہے
کونسا نام دیں ایسی برسات کو جس کے دامن میں پانی بھی ہے آگ بھی
ہوک اٹھتی رہی روح جلتی رہی دل پگھلتا رہا اشک ڈھلتے رہے
ایک منزل نہیں ایک رستہ نہیں ایک دل ایک جاں ایک چہرہ نہیں
یہ نقابوں کی دنیا کے بہروپئے بھیس لمحہ بہ لمحہ بدلتے رہے
شہر در شہر یہ خاک و خوں کی فضا سوچی سمجھی ہوئی ایک تحریک ہے
اونچے محلوں میں بیٹھے رہے اہل زر مفلسوں کے مکانات جلتے رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.