سر اٹھائے ہوئے زنداں سے گزر جاتے ہیں
سر اٹھائے ہوئے زنداں سے گزر جاتے ہیں
سر پھرے لوگ بیاباں سے گزر جاتے ہیں
جاننے کے لئے چڑھتے ہوئے دریا کا مزاج
ہم تو بہتے ہوئے طوفاں سے گزر جاتے ہیں
یاد آ جاتا ہے ہم کو غم دوراں کا سلوک
لوگ جب بھی غم جاناں سے گزر جاتے ہیں
ہم نے دیکھا ہے مسیحا کو بھی پابند جنوں
اہل دل جب کبھی درماں سے گزر جاتے ہیں
وہ تو آنسو تھے جو آنکھوں ہی میں محفوظ رہے
یہ ہیں کچھ پھول جو مژگاں سے گزر جاتے ہیں
فصل گل لائی ہے دامن میں چھپا کر کانٹے
اس لئے پھول گلستاں سے گزر جاتے ہیں
اک فسانہ ہے ادھورا سا نئے دور کے لوگ
روشنی لے کے شبستاں سے گزر جاتے ہیں
سر اٹھائے ہوئے پھرتے تھے یہاں کل جو منیرؔ
آج وہ گردش دوراں سے گزر جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.