سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
خوف یہ عمر بھر رہے گا کیا
اس نے زنجیر کر کے رکھا ہے
ہم سے وہ بے خبر رہے گا کیا
پاؤں رہتے نہیں زمیں پہ ترے
ہاتھ دستار پر رہے گا کیا
وہ جو اک خواب ہم نے دیکھا تھا
خواب ہی عمر بھر رہے گا کیا
مر رہے ہیں فراق میں تیرے
تو ہمیں مار کر رہے گا کیا
عشق خانہ خراب تیرے بعد
کوئی آباد گھر رہے گا کیا
ہم نہ ہوں گے تو یہ جہان طلسم
یہ فریب نظر رہے گا کیا
تیرا اپنا نہیں ترا سایا
تیرے زیر اثر رہے گا کیا
موج اپنی جگہ کنارا ہے
یہ کنارا مگر رہے گا کیا
ڈوبنا تھا جسے وہ ڈوب گیا
تو بھی اب ڈوب کر رہے گا کیا
آج کیا بے افق رہے گی شام
بے ستارہ سفر رہے گا کیا
دیکھ کر ان پری نژادوں کو
آئنہ خود نگر رہے گا کیا
اپنے بس میں رہے گی کیا آندھی
اپنے بل پر شجر رہے گا کیا
شہر میں وہ جدھر رہے گا رسا
شہر سارا ادھر رہے گا کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.