سراب زیست سے بچنا تو بس کے باہر تھا
سراب زیست سے بچنا تو بس کے باہر تھا
مگر جو سینے پہ یادوں کا سخت پتھر تھا
ہم اپنے آپ سے کچھ دیر گفتگو کر لیں
تمہاری یاد نہ آتی تو آج بہتر تھا
نہ قافلہ نہ غبار سفر نہ سایہ کوئی
ہمارے ساتھ تو جو کچھ تھا دامن تر تھا
خیال و خواب سے کیونکر جنوں کو ہوش آیا
تمہارا ذکر تھا یا زندگی کا نشتر تھا
نہ جانے کس لئے دنیا یہی سمجھتی ہے
نہ میں تھا درد کا مارا نہ تو ستم گر تھا
خبر نہ تھی کہ تقاضائے زندگی کیا ہے
کسی کی بزم پہ ہم کو گمان محشر تھا
حیات جاتی کہاں کس سے ہوتی داد طلب
دل حیات کا ہر زخم خود ہی خنجر تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.