سراب زعم میں تھا آسماں پکڑتے ہوئے
سراب زعم میں تھا آسماں پکڑتے ہوئے
زمیں پہ طفل گرا ہے دھواں پکڑتے ہوئے
سروں پہ تان گئی دھوپ پھر سے تیز ہوا
روا روی میں کئی سائباں پکڑتے ہوئے
فراز عرش سے اک ٹوٹتے ستارے نے
کیا غبار مجھے کہکشاں پکڑتے ہوئے
ہدف شناس ہوا تو یہ واقعہ بھی ہوا
وہ تیر توڑ رہا تھا کماں پکڑتے ہوئے
کوئی تو رنگ ہے موج سراب میں بھی کہ میں
یقین چھوڑ رہا ہوں گماں پکڑتے ہوئے
بہ زعم ناز کوئے بے کسی میں آ پہنچا
بصد نیاز در دوستاں پکڑتے ہوئے
جنون شوق میں کانٹے بھی پھول لگنے لگے
میں زخم زخم ہوا تتلیاں پکڑتے ہوئے
اب اس مدد سے تو اچھا ہے ڈوب جاؤں میں
وہ ڈر رہا ہے مری انگلیاں پکڑتے ہوئے
گلاس توڑا گیا جس ادا سے اس دل کا
مجھے غرور سا ہے کرچیاں پکڑتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.