سرد موسم کا سر شام تقاضا کیا ہے
سرد موسم کا سر شام تقاضا کیا ہے
پھر کسی حرف مکرر نے پکارا کیا ہے
یہ بھی اک عمر رواں کی ہے حکایت شاید
چڑھتے سورج کا ڈھلی شام سے رشتہ کیا ہے
ایک صد برگ سے منظر کی ہنر کاری سا
شہر میں آج ترے عشق کا چرچا کیا ہے
پھر دبے پاؤں گزر ہی گئی رونق دل کی
نکتہ داں آج مرے غم کا مداوا کیا ہے
تم نہیں سوچ میں غرقاب نہ سہی یہ تو بتاؤ
آنکھ پر ایک ستارہ سا چمکتا کیا ہے
گمرہی ہی نے نئی راہ بتائی اب تک
دیکھ اجالوں میں چمکتا سا اندھیرا کیا ہے
اک مسافت کی تھکن ہی میں مسلم گویا
پھر کبھی دور کی منزل نے پکارا کیا ہے
درد پھر آج خراماں ہے نئی سج دھج سے
دل میں ماضی کا یہ کھلتا سا دریچہ کیا ہے
پھر کسی حرف ہدایت کی طرح بوجھل سا
سمٹے سمٹے سے ثوابوں کا یہ ثمرہ کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.