سر خوشی جیت کی یوںہی نہیں طاری ہوئی ہے
سر خوشی جیت کی یوںہی نہیں طاری ہوئی ہے
کھل گیا مجھ پہ یہ بازی تری ہاری ہوئی ہے
گزرے کل تک جو لگا کرتی تھی پھولوں جیسی
آج وہ زیست مری جان پہ بھاری ہوئی ہے
چاندنی رات ہوا پھول ستارے جگنو
دیکھ سب دل کے لئے کارگزاری ہوئی ہے
دشت احساس کوئی تشنگی طاری ہے مگر
یہ مری سانس جو ہر پیاس سے عاری ہوئی ہے
ہر غزل اور فسانے میں ہے چرچا جس کا
میں نے وہ شام ترے ساتھ گزاری ہوئی ہے
دشمن جاں بھی وہی اور مری جاں بھی وہی
اس کی یادوں سے ہر اک رات سنواری ہوئی ہے
آج یادوں کی گھٹا ٹوٹ کے برسی ہے غزلؔ
اک اداسی ہے جو پھر شام سے طاری ہوئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.