سرمایۂ عظمت ہے بلندی کا نشاں ہے
ہر عزم مرا اپنی جگہ کوہ گراں ہے
وحشت مرے اس شہر میں یوں رقص کناں ہے
ہر کوچہ و بازار پہ صحرا کا گماں ہے
اک قصۂ پارینہ ہوا عہد غلامی
انساں کی غلامی کا وہ اب عہد کہاں ہے
انسان کو انسان کا حق دینا ہی ہوگا
یہ وقت کا منشا ہے تقاضائے جہاں ہے
اک صبح درخشاں کا تصور جو ابھی تک
احساس کی مانند مرے دل میں جواں ہے
منزل کا تعین نہیں ممکن کہ مرا ذہن
نادیدہ بہاروں کے تعاقب میں رواں ہے
جس شخص نے تاریخ کو عنوان دیے تھے
وہ شخص ترے شہر میں بے نام و نشاں ہے
نا قدر شناسی ہے مقدر ترا فن کار
یہ ماتم فن مرثیۂ کم نظراں ہے
چہرے پہ لکھی ہے مرے حالات کی تصویر
پڑھ لو مرا چہرہ کہ ہر اک بات عیاں ہے
باسطؔ تجھے منزل تو بہر حال ملے گی
کچھ غم نہیں جو راہ میں غوغائے سگاں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.