سرشار بھی کرتی ہے غزل لیتی ہے جاں بھی
سرشار بھی کرتی ہے غزل لیتی ہے جاں بھی
خوشبو کے برابر سے نکلتا ہے دھواں بھی
ہوتی تھیں کبھی شام کی نیندیں بھی میسر
آنکھوں میں گزر جاتی ہے اب پہلی اذاں بھی
پہچان فقط نام و نسب سے نہیں ہوتی
شجرے کا پتا دیتی ہے انساں کی زباں بھی
کس طرح کیا تو نے محبت کا ازالہ
پورا نہ ہوا مجھ سے تو لمحوں کا زیاں بھی
کچھ دخل نہیں میرا میاں کار جنوں میں
اب عشق پہ ہے مجھ کو یہ لے جائے جہاں بھی
اس دنیا میں کر مجھ سے نئے جذبوں کی خواہش
متروک نہیں چلتے حسنؔ سکے یہاں بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.