سرسوں کے کھیتوں میں اپنے کاغذ دھانی کرتے کرتے
سرسوں کے کھیتوں میں اپنے کاغذ دھانی کرتے کرتے
غزلیں ساری لکھی ہم نے خوں کو پانی کرتے کرتے
مجبوری کے چاول بھونے لاچاری دو مٹھی ڈالی
ہم نے کھایا غم کو اپنے پھر گڑ دھانی کرتے کرتے
اس دنیا میں جو بھی بھایا اس کو ہم نے خود سا سمجھا
اک عرصہ بیتا ہے ہم کو یہ نادانی کرتے کرتے
کیوں دریا بھر مصرع اولیٰ اس کی میت پر تھا رویا
جس شاعر کا دم نکلا تھا مصرع ثانی کرتے کرتے
پہلے ان سے دوری رکھی پھر خود ہی تھا اظہار کیا
ایسے دل نے چاہا ان کو آنا کانی کرتے کرتے
سب کے من کی کرتے کرتے جانے بیتی کتنی صدیاں
ہم کو تو جینا تھا یارو بس من مانی کرتے کرتے
غم کے موسم میں کیوں کر لی ہم نے ان غزلوں سے یاری
اب تو ساری عمر کٹے گی اشک بیانی کرتے کرتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.