ست تہذیبوں کا اک قرض جو پرکھوں نے پرورد کیا
ست تہذیبوں کا اک قرض جو پرکھوں نے پرورد کیا
میں نے اٹھا کر فرش پہ پٹخا پاؤں سے مسلا گرد کیا
شور دروں کی تیز ہوا نے غار کا دہانہ زرد کیا
بھولے بھٹکے دھیان کا گھوڑا آخر جسم نورد کیا
اجنبی دیس کے ساون میں رنگوں کی ریت نے مرجھا کر
سرخ لہو میں نیلی بوند ملا کر پہلو سرد کیا
آئینہ پوشی کے القاب اسی کے سر پر جائز ہیں
روشنیوں کی بھیڑ میں جس نے اپنا سایہ فرد کیا
جنس کے خانوں سے باہر یہ سفید ہوائیں کیا جانیں
خاک کو جذبۂ عشق نے مل کر اچھا خاصا مرد کیا
فطرت کے آئین کو دائم کچھ تو مصرف چاہیے تھا
آدھا بھاگ سپرد مشیت آدھا وقف درد کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.