ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے
ستا رہی ہے بہت مچھلیوں کی باس مجھے
بلا رہا ہے سمندر پھر اپنے پاس مجھے
ہوس کا شیشۂ نازک ہوں پھوٹ جاؤں گا
نہ مار کھینچ کے اس طرح سنگ یاس مجھے
میں قید میں کبھی دیوار و در کی رہ نہ سکا
نہ آ سکا کبھی شہروں کا رنگ راس مجھے
میں تیرے جسم کے دریا کو پی چکا ہوں بہت
ستا رہی ہے پھر اب کیوں بدن کی پیاس مجھے
مرے بدن میں چھپا ہے سمندروں کا فسوں
جلا سکے گی بھلا کیا یہ خشک گھاس مجھے
گرے گا ٹوٹ کے سر پر یہ آسمان کبھی
ڈرائے رکھتا ہے ہر دم مرا قیاس مجھے
جھلس رہا ہوں میں صدیوں سے غم کے صحرا میں
مگر ہے ابر گریزاں کی پھر بھی آس مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.