ستاؤ نہ ہم کو ستائے ہوئے ہیں
ستاؤ نہ ہم کو ستائے ہوئے ہیں
چراغ سحر ہیں بجھائے ہوئے ہیں
جو غم کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں
وہ سینے میں شعلے چھپائے ہوئے ہیں
سناؤ یہ مژدے غموں کے اے لوگو
یہ نغمے سنے اور سنائے ہوئے ہیں
گنوائے ہوئے ہیں وہ سب کچھ ہی اپنا
جو شعلوں سے دامن جلائے ہوئے ہیں
ہمیں آزمائے ہوئے ہے زمانہ
زمانے کو ہم آزمائے ہوئے ہیں
کسک درد کی پوچھئے ان دلوں سے
جو مدت سے یہ بار اٹھائے ہوئے ہیں
بصد شوق آئیں مری انجمن میں
نگاہیں ہم اپنی بچھائے ہوئے ہیں
ہم آداب سے زندگی کے ہیں واقف
ہم ہی اپنا سب کچھ لٹائے ہوئے ہیں
تری یاد کی یہ کسک میٹھی میٹھی
نشاں تھے یہاں کچھ مٹائے ہوئے ہیں
نہ مایوس ہو زندگی کشمکش سے
تری بزم کو ہم سجائے ہوئے ہیں
اٹھائے ہیں شاداب گل لوگ جیسے
یوں بار الم ہم اٹھائے ہوئے ہیں
اٹھا ساز ہستی ترے ساتھ ہوں میں
یہ نغمے مرے گنگنائے ہوئے ہیں
وہ رشتوں کی عظمت کو کیا جانیں اشرفؔ
جو کانٹوں سے دامن بچائے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.