سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں
سو داغ تمناؤں کے ہم کھائے ہوئے ہیں
گل جتنے ہیں اس باغ میں مرجھائے ہوئے ہیں
شرمندہ ہوں میں اپنی دعاؤں کے اثر سے
وہ آج پریشان ہیں گھبرائے ہوئے ہیں
خودداریٔ گیسو کا ہے اس رخ پہ یہ عالم
جھکنا جو پڑا ان کو تو بل کھائے ہوئے ہیں
اب تم بھی ذرا حسن جہاں سوز کو روکو
ہم تو دل بے تاب کو سمجھائے ہوئے ہیں
اے دست کرم پھینک دے کونین کو اس میں
دامن کو ترے سامنے پھیلائے ہوئے ہیں
پھوڑیں گے جبیں اب ترے در پر ترے محتاج
برباد ہیں تقدیر کے ٹھکرائے ہوئے ہیں
آتا ہے بڑھا بحر کرم جوش میں کیفیؔ
ہم اپنے گناہوں پہ جو شرمائے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.