سودائے شہادت نہ ہو جس سر میں وہ سر کیا
سودائے شہادت نہ ہو جس سر میں وہ سر کیا
جس میں نہ حرارت ہو نہ حرکت وہ شرر کیا
نکہت ہو نہ رنگت تو چمن میں گل تر کیا
جب علم و ہنر ہو نہ بشر میں تو بشر کیا
جھک جائے عدو کا بھی نہ سر جس پہ وہ در کیا
ماحول مسرت کا نہ ہو جس میں وہ گھر کیا
سینے سے گزرتی ہوئی باطن میں پہنچ کر
جو عالم دل کو نہ بدل دے وہ نظر کیا
خورشید بکف آئے شب شوق تو کیا شب
جو شام لپیٹے ہوئے آئے وہ سحر کیا
انسان کے دکھ میں جو کبھی کام نہ آئے
پھر اس کی دعاؤں کا حرم میں بھی اثر کیا
انساں کو جو دیوانۂ انساں نہ بنا دے
اس دور میں وہ درس گہہ علم و ہنر کیا
اے بے خبر اس قلب منور کے مقابل
یہ روشنیٔ لعل و گہر شمس و قمر کیا
وہ چشم تغافل ہو کہ ہو چشم عنایت
دیوانے کو ساقی کی نگاہوں کی خبر کیا
افسردگیٔ غنچہ و گل کو جو بڑھا دے
گلزار میں وہ باد صبا باد سحر کیا
دریا کو جو اک نور کا دریا نہ بنا دے
گمنام تہہ آب وہ تابندہ گہر کیا
اک بھیڑ سی دیکھی تو کہا ہم سفروں سے
دیکھو ذرا بڑھ کر تو یہ امجدؔ کا ہے گھر کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.