سواد شام میں سب وحشیوں کا جلسہ ہو
سواد شام میں سب وحشیوں کا جلسہ ہو
لہو کا راگ ہو اور نغمہ ساز پیاسا ہو
سنا رہے ہیں مجھے لوگ داستاں اس کی
اس اعتماد سے جیسے کسی نے دیکھا ہو
کسی کے ہونٹ سروں میں کلام کرتے ہوں
کسی کا رنج اداسی کی تان لیتا ہو
کسی کنار کی خوشبو سے شعر کھلنے لگیں
کہ بات بات نہیں ہو بس اک اشارا ہو
بلائے سرد کوئی شال ہو ستاروں جڑا
خزاں کی شام ہو اور سردیوں کا قصہ ہو
گلہ نہ کر کہ گلہ ماتم محبت ہے
گلے سے لگ کے بتا مجھ سے جو بھی شکوہ ہو
اب آ گئے ہیں کہ آخر تری گلی کا بھرم
کہیں کواڑ کی دستک ہی سے نہ کھلتا ہو
میں یہ سمجھ کے رگ گل سے بات کرتا ہوں
کوئی تو باغ میں میرا حساب لکھتا ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.