سوال تم لوگ کر رہے ہو یہ کیسے کیسے مسافروں سے
سوال تم لوگ کر رہے ہو یہ کیسے کیسے مسافروں سے
تھکے ہوئے ہیں یہ مدتوں کے نہ پوچھو رستے مسافروں سے
اتار کر سب تھکن کے کپڑے وہ پھر مسافت کو اوڑھتے ہیں
درخت کہتے ہیں دکھ نہ چلنے کا جب بھی ٹھہرے مسافروں سے
ادھر وہ صحرا میں خاک دھنتا ادھر وہ دریا کنارے گم صم
عجیب ہوتے ہیں یہ تعلق مسافروں کے مسافروں سے
وہ جن کے پاؤں کے بوسے لے کر طواف کرتے ہیں آبلے بھی
ہمارے شجرے ہیں ملتے جا کر کے دیکھو ایسے مسافروں سے
تھکن میں جن کی نقوش منزل سما چکے ہوں انہیں بلاؤ
ہمیں ملاؤ نہ ریگزاروں میں خاک اڑاتے مسافروں سے
تو خار پاؤں کے گرد دامن کی اس کے پہلو میں جھاڑ آئے
کسی نے مانگے بڑی توقع سے جب بھی تحفے مسافروں سے
رکے مسافر سے آسماں نے سکوت پایا ثبات سیکھا
زمیں نے رقص و طواف سیکھا ہے راہ چلتے مسافروں سے
کہ یاد گھر کی جو آ گئی تو یہ دو قدم بھی نہ چل سکیں گے
نہ چھیڑو آنگن کی بات گلیوں کا ذکر بھٹکے مسافروں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.