سویرے میں بھی حالت شام کی ہے
سویرے میں بھی حالت شام کی ہے
یہ کیسی صبح کیسی روشنی ہے
ہوا کے قافلے سوئے ہوئے ہیں
گھنے جنگل میں پھیلی خامشی ہے
لیے ہاتھوں میں تنہائی کا پرچم
اداسی سسکیوں سے لڑ رہی ہے
سمٹنا اب نظر آتا ہے مشکل
بہت بکھری ہماری زندگی ہے
نظر کے سامنے منزل ہے لیکن
مسافت پھر بھی بڑھتی جا رہی ہے
بہت حیرت سے تکتے ہیں ستارے
ندی جب ساحلوں سے کھیلتی ہے
برس کر جا چکا ہے ابر پارہ
زمیں سے کیسی خوشبو آ رہی ہے
تلاش برگ گل ہے اس کو شاید
جو تتلی پنکھ کھولے اڑ رہی ہے
زمیں اوڑھے ہوئے ہے سر پہ آنچل
یہ جو قوس قزح بکھری ہوئی ہے
گزرتا وقت جو چاہے وہ لکھے
کتاب زندگی سادہ پڑی ہے
یقیناً آ گیا ہے وقت آخر
دیے کی لو جو اتنی بڑھ گئی ہے
کسی طوفان کا ہے پیش خیمہ
سمندر میں جو اتنی خامشی ہے
اگر گھر میں نہیں ہے نورؔ کوئی
تو یہ آواز کیسی آ رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.