سزا ملی ہے بکھرنے کی اور سمٹنے کی
سزا ملی ہے بکھرنے کی اور سمٹنے کی
خطا ہوئی تھی ہواؤں سے کل لپٹنے کی
کتاب دل کی جبیں پر رقم تھی وہ تحریر
کسی میں تاب نہ تھی پھر ورق الٹنے کی
صبا نے بات اڑا لی مہکتے رنگوں سے
کسی درخت سے اک بیل کے لپٹنے کی
دلوں میں ٹوٹ گئے رابطوں کے سب ٹانکے
خبر ہے ریل کے نیچے کسی کے کٹنے کی
نہ پار ہو سکی لمحوں کی تیز رو ندی
لگی ہے چوٹ کہیں کائی پر رپٹنے کی
تلاش کرتا ہوں انجام خواب ریزی کا
یہ زندگی ہے سزا کچی نیند اچٹنے کی
بنے ہیں کتنے ہی پتھر کے اس خرابے میں
خطا طلسم سفر سے تھی رخ پلٹنے کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.