شاکی بدظن آزردہ ہیں مجھ سے میرے بھائی یار
شاکی بدظن آزردہ ہیں مجھ سے میرے بھائی یار
جانے کس جا بھول آیا ہوں رکھ کر میں گویائی یار
خاموشی کے صحرا چٹکی میں آوازوں کے جنگل
کتنی بستی اجڑی ہم سے کتنی ہم نے بسائی یار
دیکھو نا امیدی کو ایسے ٹھینگا دکھلاتے ہیں
اکثر اپنے گھر کی کنڈی خود ہم نے کھٹکائی یار
تنہائی میں اب بھی کوئی بالوں کو سہلاتا ہے
ہاتھ پکڑنا چاہیں تو ٹھٹھا مارے پروائی یار
آج اسے پھر دیکھا جس کو پہروں دیکھا کرتے تھے
اب کچھ وہ بھی ماند پڑا ہے کچھ اپنی بینائی یار
اچھی بستی اچھا گھر اچھے بچے اچھے حالات
جس کے دیکھو ساتھ لگی ہے اک خواہش آبائی یار
معنی کی دھجی بکھری اور لفظوں کے تانے بانے
رات تخیل نے مستی میں کی ہنگام آرائی یار
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.