شام آئے گی تو انداز نرالے ہوں گے
شام آئے گی تو انداز نرالے ہوں گے
تیری یادوں کے ہر اک سمت اجالے ہوں گے
میں تھی اک پیڑ ہوا لے گئی سوکھے پتے
مجھ پہ اے فصل خزاں تیرے مقالے ہوں گے
شاہراہوں پہ جو کل ڈھونڈ رہا تھا خوشیاں
قہقہے اس نے ہواؤں میں اچھالے ہوں گے
بے خطاؤں کی یہ پہچان بہت آساں ہے
اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی سنبھالے ہوں گے
اس کے دامن میں جو موتی ہیں تو حیرانی کیوں
یہ سمندر بھی اسی نے تو کھنگالے ہوں گے
ماں نگہداشت کرے جیسے کسی بچے کی
اس نے غم بھی اسی انداز سے پالے ہوں گے
کوئی گلشن نہ کھلا پائے سر راہ وفا
مجھ سے شرمندہ مرے پاؤں کے چھالے ہوں گے
کچھ نہ کہنے پہ خفا کہہ دوں تو جانے کیا ہو
لب پہ تالے اسی احساس نے ڈالے ہوں گے
میرؔ و غالبؔ کی زباں دیکھے گی وہ دن بھی نسیمؔ
سب کے ہاتھوں میں جب اردو کے رسالے ہوں گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.