شام آئی درد کا بستر کھلا
شام آئی درد کا بستر کھلا
اب رہے گا زخم دل شب بھر کھلا
قتل کا الزام مجھ پر کس لیے
خون اس کی آستینوں پر کھلا
پاؤں کے نیچے زمیں دوزخ ہوئی
اور سر پر دھوپ کا خنجر کھلا
امن کا دفتر بھی اس کے گھر میں ہے
چھوڑ رکھا ہے اسی نے شر کھلا
نفرتوں کے اس کنوئیں کو چھوڑیئے
آئیے باہر کہ ہے باہر کھلا
تل گئے آدرش سب دولت کے بھاؤ
اس صدی کا کیا عجب منظر کھلا
منہ سے اس کے پھول جھڑتے ہیں نیازؔ
ہاتھ میں رکھتا ہے وہ نشتر کھلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.