شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا
شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا
پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا
یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے
شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا
ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے
جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا
جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے
جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا
جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی
جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا
لوگ کٹے ہوئے ادھر لوگ پڑے ہوئے ادھر
جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا
جن کا جگر سیا ہوا جن کا لہو بجھا ہوا
جن کا رفو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا
کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی
میرے لہو میں گرد تھی آئینۂ شفق نہ تھا
- کتاب : chhaar khvaab (Pg. 65)
- Author : qamar jameel
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.