شام ڈھلتے ہی اجالوں کو اگاتے ہیں چراغ
شام ڈھلتے ہی اجالوں کو اگاتے ہیں چراغ
دشمنی یوں بھی اندھیروں سے نبھاتے ہیں چراغ
جشن ہی جشن کا ماحول بنا رکھا ہے
جھومتی لو سے زمانے کو لبھاتے ہیں چراغ
ابتدا یہ ہے کہ قاتل کی پذیرائی ہے
انتہا یہ ہے کہ تہذیب کو ڈھاتے ہیں چراغ
دل منور ہو تو ظلمت بھی سکوں دیتی ہے
ورنہ آنکھوں کی ہی ویرانی بڑھاتے ہیں چراغ
ان کو آندھی سے بھی لڑنے کا ہنر آتا ہے
بے زباں ہو کے بھی کیا کیا نہ سکھاتے ہیں چراغ
آ مری جان مری روح کو روشن کر دے
آ سر عام محبت کے سجاتے ہیں چراغ
لمحہ لمحہ مری خلوت میں سمٹ کر شاہدؔ
داستاں موج میں مقتل کی سناتے ہیں چراغ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.