شام خالی ہے اور سحر خالی
شام خالی ہے اور سحر خالی
شہر ہے یا کوئی کھنڈر خالی
سانپ قابض ہیں ہر خزانے پر
آدمی سب ہیں در بہ در خالی
آئیے خیر ہم تلاش کریں
پھیلتا جا رہا ہے شر خالی
رعب مفقود ہے صداؤں میں
شان دستار سے ہے سر خالی
اے اسیر قنوطیت شاعر
اپنا نقد و نظر سے بھر خالی
عبرت آموز ہے گراں خوابی
ابھی کترے گئے ہیں پر خالی
حشر اٹھے گا عنقریب یہاں
ہے بس اک آنچ کی کسر خالی
بس کوئی معتبر مسیحا ہو
دل میں بیٹھا ہوا ہے ڈر خالی
ہم اڑاتے ہیں فاختہ دن بھر
شعر کہتے ہیں رات بھر خالی
مینڈکی کو زکام ہو گیا ہے
گرچہ فتنہ ہے اس کی ٹر خالی
قبر میں کچھ سکون تھا پہلے
حال کہتا ہے یہ بھی کر خالی
ہم نہ بے ہوش ہوں تو کہیے گا
دیکھ لیں آپ اک نظر خالی
پھر لق و دق ہے سرفرازؔ کا دل
مثل صحرائے بے ضرر خالی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.