شام کو صبح کی اور صبح کو ہے شام کی بات
شام کو صبح کی اور صبح کو ہے شام کی بات
کیسے ناداں ہیں وہ کرتے ہی نہیں کام کی بات
جب کیا کرتے ہیں ہم ساقیٔ گلفام کی بات
لب پہ آ جاتی ہے اکثر دل ناکام کی بات
ڈھلتے سورج کو دکھایا تو کبھی گل کی حیات
ہم سے اس طرح سے کی حسن کے انجام کی بات
نفرت و بغض و تعصب کے علاوہ تم سے
آج تک ہو نہ سکی کوئی کبھی کام کی بات
جلتے شہروں کا دھواں آنکھوں میں گھوما اکثر
یاد آئی ہے جو گزرے ہوئے ایام کی بات
جو بہاروں کی لطافت کو سمجھتے ہی نہ ہوں
ان سے صیاد کرے کیوں قفس و دام کی بات
ہے ضرورت کہ محبت کا سبق دیں سب کو
آؤ ہم مل کے کریں عظمت اسلام کی بات
کون سا جرم ہے فرمائیں زمانے والے
تشنہ لب کرتے ہیں ساقی سے اگر جام کی بات
رنج راحت سے بدلتے تو مزہ آ جاتا
محفل عیش میں ہوتی غم و آلام کی بات
خوب دوزخ سے ڈراتا ہے گنہ گاروں کو
لب پہ واعظ کے نہیں ہے کرم عام کی بات
بے دھڑک جوشؔ وہ بڑھتے رہے منزل کی طرف
قافلے والوں نے سوچی نہیں انجام کی بات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.