شب فرقت میں یار جانی کی
شب فرقت میں یار جانی کی
درد پہلو نے مہربانی کی
منہ دکھاؤ بہت رہی تکرار
ارنی اور لن ترانی کی
جس کو کہتے ہیں چودھویں کا چاند
تیری تصویر ہے جوانی کی
کمر یار ہو گئی غائب
سن کے دھوم اپنی ناتوانی کی
صورت حال پر ہمارے مہر
داغ نے زخم نے نشانی کی
سیر نعمت سے دو جہان کی کیا
دے کے شبنم کو بوند پانی کی
ہو گیا عشق حسن سے ناگاہ
پوچھتے کیا ہو ناگہانی کی
دل برشتہ ہوا جو مثل کباب
میں نے ترکوں کی مہمانی کی
لب جاں بخش کے قریب وہ خط
شرح ہے متن زندگانی کی
گوش زد ہوتے ہی ہوئی دشمن
نیند تیری مری کہانی کی
کھینچتے اس غزال کی صورت
چوکڑی بھولتی ہے مانیؔ کی
مجھ کو بٹھلا کے یار سوتا ہے
عاشقی کی کہ پاسبانی کی
رہ گیا شوق منزل مقصود
پائے خفتہ نے سرگرانی کی
مثل شبنم ہوں صاف دل قانع
مجھ کو دریا ہے بوند پانی کی
برق چمکی تو سرفراز کیا
ابر آیا تو مہربانی کی
راحت مرگ کو نہ پوچھ آتشؔ
نہ رہی قدر زندگانی کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.