شب سیاہ کا آنچل سرک چکا ہے بہت
شب سیاہ کا آنچل سرک چکا ہے بہت
اندھیری رات میں جگنو چمک چکا ہے بہت
رئیس شہر مرا اور امتحان نہ لے
کہ میرے صبر کا ساغر چھلک چکا ہے بہت
نہ کام آئے گی اب شمع دل کی تابانی
تعلقات کا شعلہ بھڑک چکا ہے بہت
چلے بھی آؤ کہ مل کر منائیں جشن بہار
ہمارے شوق کا غنچہ چٹک چکا ہے بہت
تمہارے رشتے کی اب پرورش نہیں ممکن
کہ میرے دل میں یہ کانٹا کھٹک چکا ہے بہت
ملا نہ کچھ بھی اسے میری خامیوں کا سراغ
وہ میری ذات کی مٹی پھٹک چکا ہے بہت
بتا دے منزل مقصود کا نشاں اس کو
کہ اپنی راہ سے انساں بھٹک چکا ہے بہت
اصول مے کشی معصومؔ کو سکھائیں نہ آپ
وہ پی چکا ہے بہت اور بہک چکا ہے بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.