شب تنہائی میں جو سینچتا تھا درد پنہاں کو
شب تنہائی میں جو سینچتا تھا درد پنہاں کو
سجاتا ہے بدن سے اپنے اب گور غریباں کو
رہا دشت جنوں کا ہی مسافر میں عدم میں بھی
اٹھا جو روز محشر تو پھٹا پایا گریباں کو
سبب راحت کا ہے نا آگہی اس نارمیدہ کی
ابھی امید استخلاص ہے جس صید نازاں کو
سبب جانا مرے یاروں نے اشکوں کے بہانے کا
کیا شاداب ابر دیدہ نے جب کشت ویراں کو
تماشا گاہ حیرت ہو گیا آئینہ خانہ کل
وہ صورت دیکھتے تھے اپنی اور ہم چشم حیراں کو
نہیں باب اجابت گر کھلا تو ہو گلہ کیوں کر
رسا ہونا سکھایا ہی نہیں جب آہ سوزاں کو
نہ پاس وضع ہوتا تو نہ رہتے مضطرب یوں ہم
سکوں پایا کیا جب چاک ہم نے پھر گریباں کو
جنوں انگیز نظریں کر رہی ہیں سب کو دیوانہ
کوئی تو ہو کہ سمجھائے نگاہ فتنہ ساماں کو
پھٹا جاتا ہے دل اس وقت رشک لالہ کاری سے
جگر میں کرتے ہیں پیوست جب وہ تیر مژگاں کو
گل رسوائی پھر نخل تمنا پر کھلا ہے اک
سنو سالکؔ چلا ہے پھر طواف کوئے جاناں کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.