شب وعدہ جو نہ وہ بانیٔ بیداد آیا
شب وعدہ جو نہ وہ بانیٔ بیداد آیا
لے کے پیغام اجل درد خدا داد آیا
تو نہ آیا نہ ترا ناوک بیداد آیا
کون ساغر کش خون دل ناشاد آیا
آشیاں موسم گل میں جو مجھے یاد آیا
ایسے نالے کئے منہ کو دل صیاد آیا
جب کوئی کوچہ سے اس شوخ کے دل شاد آیا
میں نے کھایا تھا جو دھوکا وہ مجھے یاد آیا
باغ میں پیش نظر جب کوئی شمشاد آیا
مجھ کو تیرا قد بے سایہ بہت یاد آیا
کیسی آزادیٔ مرغان خوش الحان چمن
یوں ہی بے پر کی اڑاتا ہوا صیاد آیا
دل کی چوری کا گماں اور کروں میں کس پر
نہ گیا کوئی نہ اے بانیٔ بیداد آیا
دیکھ کر تشنہ لبی حشر میں ہم رندوں کی
جام کوثر لئے جبریل کا استاد آیا
بانکپن عاشق دیوانۂ مژگاں کے حضور
نوک کی لینے کہاں نشتر فصاد آیا
بے وفا عہد فراموش ستم گر ظالم
ہائے آیا بھی تو کس پر دل ناشاد آیا
عفت و شرم و حیا عصمت و ناموس و غرور
کتنے پردوں میں چھپا حسن خداداد آیا
سخت جانی کا مری ڈر تھا کچھ ایسا اس کو
مان کر نذر شہیدوں کی وہ جلاد آیا
تیرے بیمار شب غم کی عیادت کے لئے
غش کبھی آیا کبھی درد خدا داد آیا
صاد کر دو صفت چشم میں مطلع جو لکھوں
مصحف حسن کا مجھ کو ہے یہی یاد آیا
پیشوائی کے لئے کس کی بڑھی ہے رحمت
کون پھیلائے ہوئے دامن فریاد آیا
تم تو غربت میں بھی یاد آیا کئے ہو مجھ کو
میں بھی یاران وطن تم کو کبھی یاد آیا
کوہ و صحرا ترے دیوانوں سے آباد رہے
قیس و وامق کبھی آئے کبھی فرہاد آیا
مجھ کو کشتہ نگہ چشم عنایت سے کیا
قتل کو میٹھی چھری لے کے وہ جلاد آیا
بیٹھے بیٹھے تمہیں پھر مشق ستم کی سوجھی
تم کو بھولا ہوا پھر آج سبق یاد آیا
خوش قدوں نے جو کیا شعر و سخن کا جلسہ
طرح ہونے کے لئے مصرع شمشاد آیا
پہرے پڑتے ہیں اجل کے سحر و شام یہیں
دیکھ اے بدرؔ سنبھل کوچۂ جلاد آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.