شب وصل انہیں ضد اگر ہو گئی
شب وصل انہیں ضد اگر ہو گئی
نقاب اٹھتے اٹھتے سحر ہو گئی
شب وصل کیا مختصر ہو گئی
پلک مارتے ہی سحر ہو گئی
اگر ان کی ترچھی نظر ہو گئی
مری جان سینہ سپر ہو گئی
نہ کچھ مو شگافوں سے عقدہ کھلا
معما تمہاری کمر ہو گئی
لگی ہے جو اشکوں کی ہر دم جھڑی
گھٹا کیا مری چشم تر ہو گئی
حرم چھوڑ کر میں گیا سوئے دیر
طبیعت کدھر سے کدھر ہو گئی
نہیں رحم اس سنگ دل کو ذرا
مری آہ کیا بے اثر ہو گئی
چھپایا بہت عشق ہم نے مگر
انہیں سب سے پہلے خبر ہو گئی
خبر لی نہ اس غیرت ماہ نے
تڑپتے رہے رات بھر ہو گئی
نہیں کاٹے کٹتی ہے فرقت کی شب
گھڑی مجھ کو اک اک پہر ہو گئی
چھوئے پاؤں میں نے جو اس شوخ کے
حنا باعث درد سر ہو گئی
بتو تم کو سجدے کیے اس قدر
ہماری جبیں سنگ در ہو گئی
کیا اس شکر لب نے اعجاز یہ
بجائی جو نے نیشکر ہو گئی
جمایا جو وہبیؔ نے اپنا قدم
لڑائی محبت کی سر ہو گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.