شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
نہیں ہوتے ہوتے سحر ہو گئی
نگہ غیر پر بے اثر ہو گئی
تمہاری نظر کو نظر ہو گئی
کسک دل میں پھر چارہ گر ہو گئی
جو تسکیں پہر دوپہر ہو گئی
لگاتے ہیں دل اس سے اب ہار جیت
ادھر ہو گئی یا ادھر ہو گئی
جواب ان کی جانب سے دینے لگا
یہ جرأت تجھے نامہ بر ہو گئی
برے حال سے یا بھلے حال سے
تمہیں کیا ہماری بسر ہو گئی
میسر ہمیں خواب راحت کہاں
ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی
جفا پر وفا تو کروں سوچ لو
تمہیں مجھ سے الفت اگر ہو گئی
نگاہ ستم میں کچھ ایجاد ہو
کہ یہ تو پرانی نظر ہو گئی
تسلی مجھے دے کے جاتے تو ہو
مبادا جو جوع دگر ہو گئی
کہیں حسن سے بھی ہے کاہیدگی
نہ ہونے کے قابل کمر ہو گئی
شب وصل ایسی کھلی چاندنی
وہ گھبرا کے بولے سحر ہو گئی
کہی زندگی بھر کی شب واردات
مری روح پیغام بر ہو گئی
کہو کیا کرو گے مرے وصل کی
جو مشہور جھوٹی خبر ہو گئی
غم ہجر سے داغؔ مجھ کو نجات
یقیں تھا نہ ہوگی مگر ہو گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.