شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی
شب خواب کے جزیروں میں ہنس کر گزر گئی
آنکھوں میں وقت صبح مگر دھول بھر گئی
پچھلی رتوں میں سارے شجر بارور تو تھے
اب کے ہر ایک شاخ مگر بے ثمر گئی
ہم بھی بڑھے تھے وادئ اظہار میں مگر
لہجے کے انتشار سے آواز مر گئی
تجھ پھول کے حصار میں اک لطف ہے عجب
چھو کر جسے ہوائے طرب معتبر گئی
دل میں عجب سا تیر ترازو ہے ان دنوں
ہاں اے نگاہ ناز بتا تو کدھر گئی
مقصد صلائے عام ہے پھر احتیاط کیوں
بے رنگ روزنوں سے جو خوشبو گزر گئی
اس کے دیار میں کئی مہتاب بھیج کر
وادئ دل میں اک اماوس ٹھہر گئی
اب کے قفس سے دور رہی موسمی ہوا
آزاد طائروں کے پروں کو کتر گئی
آندھی نے صرف مجھ کو مسخر نہیں کیا
اک دشت بے دلی بھی مرے نام کر گئی
پھر چار سو کثیف دھوئیں پھیلنے لگے
پھر شہر کی نگاہ تیرے قصر پر گئی
الفاظ کے طلسم سے عنبرؔ کو ہے شغف
اس کی حیات کیسے بھلا بے ہنر گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.