شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا
شب کہ مطرب تھا شراب ناب تھی پیمانہ تھا
وہ پری وش کیا نہ تھا گویا کہ جو کچھ تھا نہ تھا
سوز دل سے لب یہ ہر دم نالہ بیتابانہ تھا
ہجر ساقی میں کسی پہلو قرار اصلا نہ تھا
جلوہ گر دل میں خیال عارض جانانہ تھا
گھر کی زینت تھی کہ زینت بخش صاحب خانہ تھا
کیا کروں اب مبتلا ہوں آپ اپنے حال میں
دی تھی نعمت اس نے جب لب پر مرے شکرانہ تھا
شہرۂ آفاق ہوتی میری ازخود رفتگی
خیریت گزری کہ آنکھوں سے تجھے دیکھا نہ تھا
فصل گل میں چھوڑتا مے دیکھ کر ماہ صیام
کچھ جنوں مجھ کو نہ تھا وحشت نہ تھی سودا نہ تھا
کیا کہوں ڈر یہ ہے وہ لیلیٰ ادا رسوا نہ ہو
ورنہ مجنوں سے بھی کچھ بڑھ کر میرا افسانہ نہ تھا
گر نزاکت میں نہ ہوتا مثل تار عنکبوت
خوب الفت سے زمانہ میں کوئی رشتہ نہ تھا
یوں ضعیفی آ گئی گویا ازل سے تھے ضعیف
اور شباب ایسا گیا جیسے کبھی آیا نہ تھا
ہے یقیں عاشق تمہارا مر گیا ہو لو خبر
میں نے کل دیکھا تھا جا کر حال کچھ اچھا نہ تھا
نیم باز آنکھیں تمہارا نام تھا ورد زباں
زخم دل پر ہاتھ تھا لب پر مگر شکوہ نہ تھا
بخت کی برگشتگی گزری ہے حد سے اے حبیبؔ
دیکھتے ہیں ان کے تلوے جن کا منہ دیکھا نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.