شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے
شب و روز جیسے ٹھہر گئے کوئی ناز ہے نہ نیاز ہے
ترے ہجر میں یہ پتا چلا مری عمر کتنی دراز ہے
یہ جہاں ہے محبس بے اماں کوئی سانس لے تو بھلا کہاں
ترا حسن آ گیا درمیاں یہی زندگی کا جواز ہے
ہو بدن کے لوچ کا کیا بیاں کسی نے کی موج ہے پرفشاں
کوئی لے ہے زیر قبا نہاں کوئی شے بہ صورت راز ہے
ترے غم سے دل پھر امیر ہو کوئی چاند نکلے سفیر ہو
شب دشت ہو ہے یہ زندگی نہ نشیب ہے نہ فراز ہے
چلے طائر اڑ کے پس شفق ہے اداس اداس رخ افق
کہ بیاض شام کا ہر ورق تری داستان دراز ہے
اگر احتیاط خطاب ہو لب سنگ کھل کے گلاب ہو
تو کسی صنم کو صدا تو دے در بت کدہ ابھی باز ہے
وہی روپ ساغر جم میں بھی وہی عکس دیدۂ نم میں بھی
مرے واسطے تو حرم میں بھی وہی شاذؔ روئے مجاز ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Shaz Tamkanat (Pg. 318)
- Author : Shaz Tamkanat
- مطبع : Educational Publishing House (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.