شگفتہ کر کے مجھے کیا گزر گئی ہے صبا
شگفتہ کر کے مجھے کیا گزر گئی ہے صبا
مرے وجود کو تقسیم کر گئی ہے صبا
جگائے خوشبو کے دل میں ہزارہا فتنے
تپش سے مہر منور کی ڈر گئی ہے صبا
گلوں کو بحر شبستاں سے گر نکالا بھی
تو دن کے دشت میں خود ہی بکھر گئی ہے صبا
حنائی ہاتھ میں لے کر کے نور و نکہت و رنگ
نواح جاں میں ہمارے اتر گئی ہے صبا
طلسم ایک ہے ملنے میں اور بچھڑنے میں
ذرا سا چھو کے مجھے پھر مکر گئی ہے صبا
مثال موجۂ خوشبو میں اس کے شہر اترا
تہ حجاب سہی پر سنور گئی ہے صبا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.