شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
پنڈت جواہر ناتھ ساقی
MORE BYپنڈت جواہر ناتھ ساقی
شہید ارماں پڑے ہیں بسمل کھڑا وہ تلوار کا دھنی ہے
ادھر تو یہ قتل عام دیکھا ادھر وہ کیسی کٹا چھنی ہے
ہوا ہے نیرنگ آج کیسا یہ دل میں قاتل کے کیا ٹھنی ہے
جدھر سے گزرا زباں سے نکلا یہ کشتنی ہے وہ کشتنی ہے
بگڑ کے ہم کو بگاڑ ڈالا سنوارنا ہی تمہیں نہ آیا
بنو جو منصف بتائیں دل بر کہ اس بگڑنے سے کیا بنی ہے
کبھی ہنساتی ہے یاد تیری کبھی رلاتا ہے ہجر تیرا
یہ قابل دید ہے تماشا یہ سیر بے مہر دیدنی ہے
سنا ہے مقتل میں آج کوئی قتیل حسرت شہید ہوگا
ہوئی جو شہرت یہ شہر میں ہے ہر اک طرف ایک سنسنی ہے
کرم ہے دریا دلوں کی زینت کہاں بخیلوں کی ہے یہ طینت
اسے تونگر نہیں کہیں گے جو کوئی محتاج دل غنی ہے
شکست پیماں کا ہم کو عادی کیا ہے اک مست نوش لب نے
بہ مصلحت ہم ہوئے ہیں تائب یہ توبہ آخر شکستنی ہے
دکھا کے ہم کو جمال رعنا کیا ہے کیوں رہ نورد وحشت
بنے تھے خود رہنما ہمارے یہ رہبری میں بھی رہزنی ہے
طریق ان کا ہی صلح کل ہے جو بے ہمہ با ہمہ نظر ہیں
ہمیں یہ برتاؤ نے دکھایا کہ دوستی میں بھی دشمنی ہے
وفا شعاری ہے جاں نثاری ہے عذر شکوہ نہ عرض مطلب
ہمیں ہیں اک بے نظیر طالب حریف جو ہے وہ یک فنی ہے
وہ آیا تربت پہ بے وفا گل ہر اک سے افسردہ ہو کے پوچھا
یہ کس کی مشہد پہ ہے چراغاں جو عبرت انگیز روشنی ہے
فنائے قلبی ہے فتح عینی ہوا ہے گر محو شرح صدری
یہی ہے مفتاح دل کشائی یہ کشف باطن کی جانکنی ہے
ہوئے جو یہ مبتلائے الفت اسیر دام وصال کے ہیں
ہوائے زلف خیال جاناں بنی ہوئی طوق گردنی ہے
یہ کس قلندر کو مار ڈالا غضب کیا جامہ پوش نخوت
کھڑا ہوا رو رہا ہے جذبہ گری ہوئی پاک دامنی ہے
کبھی نہ ہوں گے مرید جدت نہیں ہیں مشتاق حسن بدعت
ہمارا مشرب ہے صوفیانہ ہمارا مذہب سناتنی ہے
کیا ہے عبرت مثال کیسا خیال عبرت نظر نے ہم کو
کریں تعلق کسی سے کیا ہم جو شکل دیکھی گزشتنی ہے
صفات میں ذات ہے نمایاں ہوئی وہ بالغ نظر ہے نسبت
کیا ہے محو جمال جاناں یہ سیر قلبی کی روشنی ہے
نہ ہوں غرابت اثر یہ اے دل نقوش نیرنگ شان فطرت
کوئی ہوا بے نیاز عالم کوئی ہے مفلس کوئی غنی ہے
ہوئے نہ ایثار و بذل سے اے کریم ہم مستفیض اب تک
تمہارا شیوہ جو ہے سخا کا پسند اخلاق محسنی ہے
فراق گل سے جو نالہ کش ہے قفس میں بلبل شہید جلوہ
بہار گلشن خزاں نما ہے جنوں زدہ ابر بہمنی ہے
ملا نہ جام شراب ساقیؔ کوئی قدح بنگ کا عطا ہو
ہمارے پیر مغاں خضر ہیں سبو میں سبزی بھی تو چھنی ہے
- کتاب : Kulliyat-e-Saaqi (Pg. e-190 p-193)
- Author : Pandit Jawahar Nath Saqi
- مطبع : Pandit Jawahar Nath Saqi (1926)
- اشاعت : 1926
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.