شہر بھر میں کہیں رونق تھی نہ تابانی تھی
شہر بھر میں کہیں رونق تھی نہ تابانی تھی
ہر طرف چھائی ہوئی گرد پریشانی تھی
جب سرابوں پہ قناعت کا سلیقہ آیا
ریت کو ہاتھ لگایا تو وہیں پانی تھی
سادہ لوحی مری رکھتی تھی توقع تجھ سے
مجھ سے امید لگائے تری نادانی تھی
کیا بتاؤں کہ اسے دیکھ کے حیراں کیوں ہوں
ایک آئینہ تھا آئینے میں حیرانی تھی
اب ندامت کے سمندر میں لگائیں غوطے
آرزوؤں نے کہاں بات مری مانی تھی
مختصر اس کو کیا ہے متبسم ہو کر
ورنہ روداد مرے درد کی طولانی تھی
اے مظفرؔ مجھے تا عمر رہی فکر سخن
جب کہ فرصت تھی میسر نہ تن آسانی تھی
- کتاب : kamaan (Pg. 271)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.