شہر در شہر اسی آگ کا ڈر ہوتا ہے
جس شرارے کا ترے لب سے گزر ہوتا ہے
تلخیاں دوڑتی پھرتی ہیں لہو میں جن کے
ایسی نظروں میں کہاں حسن نظر ہوتا ہے
زاویے فکر کے انداز بیاں کا جادو
ہم کلامی کی ادا ایک ہنر ہوتا ہے
بزم آرائی سے آنکھوں میں کٹی ہیں راتیں
اک نئی صبح کا آغاز مگر ہوتا ہے
چاند آنگن میں اتر آیا ہے غمگیں ہو کر
نیند پر بار گراں پچھلا پہر ہوتا ہے
قافلے جب بھی چلے ہیں تو گماں پر ہی چلے
اور منزل کے یقیں پر ہی سفر ہوتا ہے
الجھنیں ڈھونڈھتی رہتی ہیں سبب الجھن کا
ذہن انسان سے کس کس کا گزر ہوتا ہے
وہ فلسطین ہو بغداد یا بستی کوئی
راز داں سب کا یہاں آب خضر ہوتا ہے
روز کیوں قتل ہوا کرتا ہے خورشید یہاں
روز کیوں چاک گریبان سحر ہوتا ہے
میں روایات سے محفوظ ہوں کیوں کہ شاہد
ٹھہرے پانی میں کہاں کوئی بھنور ہوتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.