شہر احساس میں زخموں کے خریدار بہت
شہر احساس میں زخموں کے خریدار بہت
ہاتھ میں سنگ اٹھا شیشوں کے بازار بہت
کوئی کھڑکی ہے سلامت نہ کوئی دروازہ
میرے گھر کے سبھی کمرے ہیں ہوا دار بہت
ہاتھ تھکتے نہیں رنگوں کے ہیولے بن کر
اہل فن کو سر کاغذ خط پر کار بہت
دشت میں بھی وہی آثار ہیں آبادی کے
پھیلتا جاتا ہے اب سایۂ دیوار بہت
دھوپ کا پھول گرا شاخ شفق سے جس دم
دن کا چہرہ نظر آتا تھا شکن دار بہت
نقش ہے ذہن پہ یوں تیرا طلسمی پیکر
میں ہوں خود اپنی نگاہوں میں پر اسرار بہت
لفظ کرنوں کی طرح دل میں اتر جاتے ہیں
دل نشیں ہے ترا پیرایۂ اظہار بہت
خوف دشمن کی طرح میرے تعاقب میں بھی تھا
خنجر وہم کے میں نے بھی سہے وار بہت
تن گئے اتنے مرے گرد ہواؤں کے پہاڑ
سانس لینا بھی ہے میرے لیے دشوار بہت
اب بھی لمحوں سے سلاسل کی کھنک آتی ہے
اب بھی ہیں وقت کے زنداں میں گرفتار بہت
زخم کے چاند نہ راتوں کو مرے دل میں اتار
میرے سینے پہ نہ رکھ سنگ گراں بار بہت
تیرگی آئے نہ صدیقؔ ضیا کے نزدیک
کاٹ رکھتی ہے یہ ٹوٹی ہوئی تلوار بہت
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.