شہر میں رہ کر یہی سوچا ہے بس برسات میں
شہر میں رہ کر یہی سوچا ہے بس برسات میں
جانے کتنے گھر گریں اب کے برس برسات میں
کھڑکیاں جنگل میں چلتی ریل کی سب کھول دو
یہ ہوا یہ مٹی اور پانی کا مس برسات میں
اپنے احساسات کے تاروں کو یوں ڈھیلا نہ چھوڑ
اپنی نس نس کی طرح ان کو بھی کس برسات میں
بج رہے ہیں دھیمے دھیمے آنگنوں میں جل ترنگ
میٹھی میٹھی سی ہے کمروں میں امس برسات میں
میری نس نس میں اترتی جا رہی ہیں بوندیاں
اور سلگتا جا رہا ہے ہر نفس برسات میں
عشق کی تقدیس کو اب اک طرف رکھ دیجئے
عشق کے رتبے کو پہنچی ہے ہوس برسات میں
بس تناور پیڑ ہی رہ جائیں گے سیدھے کھڑے
باقی سب بہہ جائیں گے یہ خار و خس برسات میں
وقت سے پہلے قفس کی تیلیوں سے سر نہ پھوڑ
تنکے تنکے ہو کے بکھرے گا قفس برسات میں
بادلوں کی گڑگڑاہٹ میں رجز خوانی کی شان
اور بجلی کی کڑک ہے دیر رس برسات میں
طور اس کے بھی بدلتے رہتے ہیں موسم کے ساتھ
ہے تغافل سال بھر اور پیش و پس برسات میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.