شہروں کی سمت گاؤں سے آگے نکل گئے
شہروں کی سمت گاؤں سے آگے نکل گئے
جذبات میرے پاؤں سے آگے نکل گئے
آغاز میں چلے تھے تو بیٹے تھے ساتھ ساتھ
کچھ دور چل کے ماؤں سے آگے نکل گئے
سر پہ پڑی جو دھوپ تو جانا کہ یار ہم
پیڑوں کی سرد چھاؤں سے آگے نکل گئے
ہوتا بھی وہ بدست دعا کس کے واسطے
جب ہم ہی سب دعاؤں سے آگے نکل گئے
اتنا ٹھہرنا پڑ گیا خاموشیوں کے ساتھ
ہر شخص کی صداؤں سے آگے نکل گئے
مردود کیوں نہ ہوتے جن اطراف کا تھا حکم
ہم لوگ ان دشاؤں سے آگے نکل گئے
صادقؔ پکاریے نہ انہیں اب یہ دشت زاد
زلفوں کی نم گھٹاؤں سے آگے نکل گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.