شجر جلتے ہیں شاخیں جل رہی ہیں
شجر جلتے ہیں شاخیں جل رہی ہیں
ہوائیں ہیں کہ پیہم چل رہی ہیں
طلب رد طلب دونوں قیامت
یہ آنکھیں عمر بھر جل تھل رہی ہیں
چمکتا چاند چہرہ سامنے تھا
امنگیں بحر تھیں بیکل رہی ہیں
دبے پاؤں مری تنہائیوں میں
ہوائیں خواب بن کر چل رہی ہیں
سحر دم صحبت رفتہ کی یادیں
مرے پہلو میں آنکھیں مل رہی ہیں
تری یاد اور بے خوابی کی راتیں
یہ پلکیں آنکھ پر بوجھل رہی ہیں
بہت پیچیدہ ہیں چاہت کے انداز
کہ اب دل داریاں بھی کھل رہی ہیں
ترازو ہیں خرد مندوں کے دل میں
وہی باتیں جو بے-اٹکل رہی ہیں
ضیاؔ ان ساعتوں میں عمر گزری
کھلی آنکھوں سے جو اوجھل رہی ہیں
- کتاب : sar-e-shaam se pas-e-harf tak (Pg. 290)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.